Skip to main content

Posts

Keya Hoga Agar Chaand Ghaib Ho Jay کیا ہوگا اگر چاند غائب ہو جاۓ

dosto wese to allah ki banai hui har cheez hi hmari zindgi ki zmanat hai lekin chand ke na hony ki wajah se hmari zindgi par bht gehry asraat numaiyan hon ge. Chand ki gair mujoodgi main gravitational force khatam ho jay gi jis ki pehla asar yeh hoga smundr main paida hony wali mdojazar khtm ho jain gi. jis se samundr k pani main oxigen ki kami wage hogi jo k smundri hayat ki amawat ka bais ban sakti hai. chonke chand ki kashash zmeen ko apni trf khenchti hai lekin wo khench to nahi paati mager smandron main halchal ka bais banti hai usi halchal k nateejy main madujazar paida hoti hai madojazar ki wajah se smndr main oixgen dakhil hoti hai jo k samundri hayat ki zindgi k liy zaruri Chand ki grevitational force hi zameen k north or south poll ko kisi plastic rubr band ki trah khenchti or chhorti hai jis ki natejy mn zameen pr mosmiyati tabdili wajood main aati hai agr yeh force khtam ho jay to zameen ki ik poll ki traf lagatar ghoomny lag jay gi mosmiyati nizam khtm ho jay ga is so
Recent posts

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے ضلع صوابی کو گیس کی فراہمی کا افتتاح کیا

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے کہا ہے کہ حلقہ این اے ۔13 ضلع صوابی کو گیس کی فراہمی کا افتتاح عوام کیلئے ایک تحفہ ہے۔اس کے لئے بڑی محنت کی گئی ۔نا اہل حکمرانوں نے صوبے کے عوام کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا ۔امیر مقام اور وزیر اعظم صوبائی حکومت  کے وسائل اور محنت پر سیاست کرتے ہیں اور صوبائی حکومت کے منصوبوں کا جعلی افتتاح کرکے عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔ ان کو افتتاح کرنے کا جنون ہے ۔ بڑے شوق سے کرے مگر اپنے وسائل پر ۔ صوبائی حکومت کے منصوبوں پر سیاست نہ کرے ۔امیر مقام چھیڑ چھاڑ نہ کرے اگر آئندہ چھیڑ چھاڑ کی تو وفاق اور صوبے کے درمیان جھگڑا پیدا ہو گا۔ ہم با اختیار ہیں ، یہاں وفاق کی مرضی نہیں چلے گی۔ ہم صوبے کے حقوق کا تحفظ اور عوام کو حقوق کی فراہمی بخوبی جانتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے تحصیل ٹوپی ضلع صوابی میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سپیکر صوبائی اسمبلی اسد قیصر، سینئر صوبائی وزیر شہرا م خان ترکئی ، رکن قومی اسمبلی عاقب اﷲ خان اور پی ٹی آئی کے مقامی رہنما فضل خان نے بھی اجلاس سے خطاب کیا۔ وزیراعلیٰ نے حلقہ این اے 13 کو گیس کی فراہمی کے منصوبے اور تحصیل پلے گراؤنڈ

یہ مولوی پٹواری لگتا ہے - رعایت الله فاروقی

محلے کے بازار میں دو نوجوان ٹکرے جن کے ہاتھ میں کچھ پمفلٹ تھے۔ ہاتھ ملا کر ایک پمفلٹ پکڑایا جس پر نظر ڈالی تو پی ٹی آئی کا تھا۔ ان میں سے ایک نوجوان نے پوچھا "سر ! کیا آپ جانتے ہیں آپ کے ایم این اے کون ہیں ؟" "جی ہاں ! چوہدری نثار علی خان ہیں !" "سر ! کیا آپ نے پچھلے چار سال کے دوران انہیں ایک بار بھی حلقے میں دیکھا ؟" "بالکل نہیں دیکھا !" "سر ! کیا ہمیں ایسے لوگوں کو منتخب کرنا چاہئے جو حلقے میں آتے ہی نہیں ہیں ؟" "بیٹا ! ہم نے ان کو حلقے میں آنے کے لئے نہیں بلکہ اسمبلی میں جانے کے لئے منتخب کیا ہے اور وہاں وہ پابندی سے جا رہے ہیں" "تو سر ! حلقے کے کام کون کرائے گا ؟" "دیکھو بیٹا ! چوہدری نثار علی خان 2012ء کے آخر میں آئے تھے اور صاف صاف کہا تھا کہ جو کام کروانے ہیں الیکشن سے قبل کروا لو کیونکہ جیتنے کے بعد اگر ہماری حکومت بن گئی تو میری مصروفیات بہت بڑھ جائیں گی۔ ہم نے ضروریات کی لسٹ پکڑائی اور وہ سارے کام انہوں نے 6 ماہ میں کرکے دیدئے، اب اس سال کے آخر تک وہ پھر آئیں گے تو ہم نئی لسٹ پکڑا

ہم شکل - لالہ عارف خٹک

ہم شکل ہونا کوئی معیوب بات نہیں ،مگر کبھی کبھار بہت معیوب بات بن ہی جاتی ہے۔ کراچی میں ایک نوجوان عالمگیر خان جس نے پیپلز پارٹی کی نیندیں حرام کردی تھیں اور شہر میں ہر کھلے گٹر پر سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کی تصویر پینٹ کرکے پھر اُس پر Fix it# کا ہیش ٹیگ لگا کر بھاگ جاتا تھا ،میڈیا میں کافی مشہور ہوا۔ حکومت وقت نے اس کے خلاف ایکشن لیا۔اور پولیس خاصی جانفشانی سے اس کو تلاش کرنے لگی۔بد قسمتی سے اس کی اور میری شکلیں کافی ملتی جلتی ہیں۔ ہفتے کے دن بچوں سمیت بیگم کے ساتھ زاہد نہاری کھانے طارق روڈ جانا ہوا۔ یونیورسٹی روڈ سے جیسے ہی کشمیر روڈ پر مڑا۔پولیس کی تین گاڑیاں سائرن بجاتی ہوئی آگے نکل گئیں اور ایک دم سے بریک لگاکر میری کار کو چاروں طرف نرغے میں لے لیا۔ ہم سب حیران و پریشان کہ ہم نے کون سا جرم کرلیا ہے۔ اچانک میرے ذہن میں آیا،کہ شاید کابل سے کسی نے میرے خلاف مخبری کی ہوگی، کہ یہ بندہ مشکوک ہے۔ ایک ڈی ایس پی رینک کا بندہ گاڑی کے پاس آیا۔اور بولا کہ نیچے اتریں۔میں جیسے ہی نیچے اترا۔دو سپاہیوں نے مجھے جکڑ لیا۔ میں نے جرم کا پوچھا۔تو بتایا کہ وزیراعلیٰ اور حکومت وقت کی توہین کرتے

مفتی عدنان کاکا خیل جنت اور ڈاکٹر روتھ فاؤ - بابا کوڈا

تھوڑی دیر کیلئے فرض کرلیں کہ اگر مفتی عدنان کاکا خیل مسلمان گھرانے کی بجائے کسی ہندو یا عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا ہوتا۔ وہ اپنی خاندانی اقدار کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتا، اپنی سوچ کے مطابق جو بہتر سمجھتا، وہ کرتا۔ پھر جب وہ اسی حالت میں مرتا تو شاید جہنم میں چلا جاتا۔ ڈاکٹر روتھ کے مرنے پر تو بڑی آسانی سے عدنان کاکا خیل نے اسے جہنم جانے کی نوید سنا دی لیکن اگر ڈاکٹر روتھ نے جہنم کے دروازے سے اندر داخل ہونے سے پہلے اللہ سے یہ شکوہ کردیا کہ وہ 50 سال اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہی اور ایک دفعہ بھی اس کے پاس کوئی مفتی عدنان کاکا خیل نہ آیا جو اسے اسلام کی دعوت دیتا اور اسے جہنم سے نجات دلاتا۔ ڈاکٹر روتھ اگر مسلمان گھرانے میں پیدا نہیں ہوئی تو اس میں اس کا کیا قصور تھا؟ بالکل اسی طرح جیسے عدنان کاکا خیل اگر عیسائی گھرانے میں پیدا ہوتا تو آج مفتی نہ بنا ہوتا۔ اب یہ کوئی نہ کہے کہ ڈاکٹر روتھ کو اللہ نے دماغ دیا تھا، اس نے خود اسلام کیوں نہ قبول کرلیا۔ آپ کو پتہ ہونا چاہیئے کہ اللہ کے آخری نبی ﷺ ستر، ستر مرتبہ لوگوں کے گھر دین کی دعوت دینے جاتے تھے۔ ایک دفعہ سخت بارش، طوفان کے موقع

تم بتاؤ تم نے ملک کیلیے کیا کیا ۔ بابا کوڈا

" یہ مت پوچھو کہ ملک نے تم کو کیا دیا، یہ بتاؤ کہ تم ملک کیلئے کیا کرسکتے ہو؟ " آپ نے اکثر یہ ڈائیلاگ مختلف کالموں میں پڑھا ہوگا یا ٹی وی پر سنا ہوگا۔ یہ تاریخی جملہ امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے 20 جنوری 1961 کو صدر بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں امریکی عوام سے کہا تھا۔ صدر بننے کے تقریباً 2 سال بعد کینیڈی کو ٹیکساس کی ریاست میں کسی شخص نے قتل کردیا جس میں سوویت یونین کے ملوث ہونے کا شک کیا گیا کیونکہ کینیڈی نے اپنے دو سال کے عرصے میں سردجنگ میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ کینیڈی کا ایک چھوٹا بھائی ٹیڈ کینیڈی بھی تھا جو کہ 30 سال کی عمر میں 1962 میں میساچیوسٹس نامی سٹیٹ کا سینیٹر منتخب ہوا۔ صدر کینیڈی کے قتل کے بعد ٹیڈ کینیڈی ایک مرتبہ پھر بھاری ووٹوں سے سینیٹر منتخب ہوگیا اور مرحوم صدر کی مقبولیت کی وجہ سے ٹیڈ کینیڈی بھی اپنی ریاست کے ساتھ ساتھ پورے امریکہ میں مقبول ہوتا گیا۔ خیال کیا جارہا تھا کہ وہ 1972 کے الیکشن میں ڈیموکریٹس کا متفقہ صدارتی امیدوار بن کر بغیر کسی مشکل کے امریکہ کا صدر منتخب ہوجائے گا۔ 18 جولائی 1969 کو ٹیڈ کینیڈی نے شہر سے دور ایک جزیرے پر اپنے چند

آخری سیلیوٹ سعادت حسن منٹو افسانہ

آخری سیلیوٹ (سعادت حسن منٹو) یہ کشمیر کی لڑائی بھی کچھ عجیب و غریب تھی۔ صوبیدار رب نواز کا دماغ ایسی بندوق بن گیا تھا جس کا گھوڑا خراب ہو گیا ہو۔ پچھلی بڑی جنگ میں وہ کئی محاذوں پر لڑ چکا تھا۔ مارنا اور مرنا جانتا تھا۔ چھوٹے بڑے افسروں کی نظر میں اسکی بڑی توقیر تھی، اس لیے کہ وہ بڑا بہادر، نڈر اور سمجھدار سپاہی تھا۔ پلاٹون کمانڈر مشکل کام ہمیشہ اسے ہی سونپتے تھے اور وہ ان سے عہدہ برآہوتا تھا۔ مگر اس لڑائی کا ڈھنگ ہی نرالا تھا۔ دل میں بڑا ولولہ، بڑا جوش تھا۔ بھوک پیاس سے بے پرواہ صرف ایک ہی لگن تھی دشمن کا صفایا کر دینے کی، مگر جب اس سے سامنا ہوتا تو کچھ جانی پہچانی صورتیں نظر آتیں۔ بعض دوست نظر آتے، بڑے بغلی قسم کے دوست جو پچھلی لڑائی میں اس کے دوش بدوش، اتحادیوں کے دشمن سے لڑے تھے، پر اب جان کے پیاسے بنے ہوئے تھے۔ صوبیدار رب نواز سوچتا تھا کہ یہ سب خواب تو نہیں۔ پچھلی بڑی جنگ کا اعلان۔ ۔ ۔ بھرتی، قد اور چھاتیوں کی پیمائش، پی ٹی، چاند ماری اور پھر محاذ۔ ۔ ۔ ادھر سے اُدھر، اُدھر سے ادھر، آخر جنگ کا خاتمہ۔ ۔ ۔ پھر ایک دم پاکستان کا قیام اور ساتھ ہی کشمیر کی لڑائی۔ اوپر تلے کتنی چیز